اگر کوئی تیماردار نہ ہو تو بیمار ہونے سے کیا فائدہ
تو کوئی نہ ہو تیماردار؟ جی نہیں! بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے! مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے کا قرینہ آتا ہے، مرنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اور سچ پوچھئے تو مرنے کا سلیقہ کچھ مشرق ہی کا حصہ ہے۔ اسی بنا پر غالب کی نفاست پسند طبیعت نے1277ھ میں وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا کہ اس میں ان کی کسر شان تھی۔ حالانکہ اپنی پیشین گوئی کو صحیح ثابت کرنے کی غرض سے وہ اسی سال مرنے کے آرزو مند تھے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں با عزت طریقے سے مرنا ایک حادثہ نہیں، ہنر ہے جس کے لئے عمر بھر ریاض کرنا پڑتا ہے اور اللہ اگر توفیق نہ دے تو یہ ہر ایک کے بس کا روگ بھی نہیں۔ بالخصوص پیشہ ور سیاستدان اس کے فنی آداب سے واقف نہیں ہوتے۔ بہت کم لیڈر ایسے گزرے ہیں جنہیں صحیح وقت پر مرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ ہر لیڈر کی زندگی میں خواہ وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، ایک وقت ضرور آتا ہے جب وہ ذرا جی کڑا کر کے مر جائے یا اپنے سیاسی دشمنوں کو رشوت دے کر اپنے آپ کو شہید کرا لے تو وہ لوگ سال کے سال نہ سہی ہر الیکشن پر ضرور دھوم دھام سے اس کا عرس منایا کریں۔ البتہ دقت یہ ہے کہ اس قسم کی سعادت دوسرے کے زور بازو پر منحصر ہے اور سعدی کہہ گئے ہیں کہ دوسرے کے بل بوتے پر جنت میں جانا عقوبت دوزخ کے برابر ہے۔ پھر اس کا کیا علاج کہ انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔
بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ ورنہ سر دست مجھے ان خوش نصیب جواں مرگوں سے سروکار نہیں جو جینے کے قرینے اور مرنے کے آداب سے واقف ہیں۔ میرا تعلق تو اس مظلوم اکثریت سے ہے جس کو بقول شاعر؛
جینے کی ادا یاد، نہ مرنے کی ادا یاد
چنچانچہ اس وقت میں اس بے زبان طبقہ کی ترجمانی کرنا چاہتا ہوں جو اس درمیانی کیفیت سے گزر رہا ہے جو موت اور زندگی دونوں سے زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہے، یعنی بیماری! میرا اشارہ اس طبقہ کی طرف ہے جسے سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے صحت کے سوا۔
میں اس جسمانی تکلیف سے بالکل نہیں گھبراتا جو لازمہ علالت ہے۔ اسپرین کی صرف ایک گولی یا مارفیا کا ایک انجکشن اس سے نجات دلانے کے لئے کافی ہے لیکن اس روحانی اذیت کا کوئی علاج نہیں جو عیادت کرنے والوں سے مسلسل پہنچتی رہتی ہے۔ ایک دائمر المرض کی حیثیت سے جو اس درد لا دوا کی لذت سے آشنا ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مارفیا کے انجکشن مریض کے بجائے مزاج پرسی کرنے والوں کے لگائے جائیں تو مریض کو بہت جلد سکون آجائے۔
اردو شاعروں کے بیان کو باور کیا جائے تو پچھلے زمانے میں علالت کی غایت ’تقریب بہر ملاقات‘ کے سوا کچھ نہ تھی۔ محبوب عیادت کے بہانے غیر کے گھر جاتا تھا اور ہر سمجھدار آدمی اسی امید میں بیمار پڑتا تھا کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا مزاج پرسی کو آنکلے۔
علالت بے عیادت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
اس زمانے کے انداز عیادت میں کوئی دل نوازی ہو تو ہو میں تو ان لوگوں میں سے ہو ں جو محض عیادت کے خوف سے تندرست رہنا چاہتے ہیں۔ ایک حساس دائم المرض کے لئے ’مزاج اچھا ہے؟‘ ایک رسمی یا دعائیہ جملہ نہیں بلکہ ذاتی حملہ ہے جو ہر بار اسے کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں تو آئے دن کی پر سش حال سے اس قدر بے زار ہو چکا ہوں کہ احباب کو آگاہ کر دیا ہے کہ جب تک میں بقلم خود یہ اطلاع نہ دوں کہ آج اچھا ہوں، مجھے حسب معمول بیمار ہی سمجھیں اور مزاج پرسی کر کے شرمندہ ہونے کا موقع نہ دیں۔
سنا ہے شائستہ آدمی کی یہ پہچان ہے کہ اگر آپ اس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار صحیح تسلیم کر لیاجائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلنے۔ یقین نہ آئے تو جھوٹ موٹ کسی سے کہہ دیجئے کہ مجھے زکام ہو گیا ہے۔ پھر دیکھئے کیسے کیسے مجرب نسخے،خاندانی چٹکلے اور فقیری ٹوٹکے آپ کو بتائے جاتے ہیں۔ میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کی اصلی وجہ طبی معلومات کی زیادتی ہے یا مذاق سلیم کی کمی۔ بہر حال بیمار کو مشورہ دینا ہر تندرست آدمی اپنا خوش گوار فرض سمجھتا ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ننانوے فی صد لوگ ایک دوسرے کو مشورے کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتے ہیں؟
بعض اوقات احباب اس بات سے بہت آزردہ ہیں کہ میں ان کے مشوروں پر عمل نہیں کرتا۔ حالانکہ ان پر عمل پیرا نہ ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا خون کسی عزیز دوست کی گردن پر ہو۔ اس وقت میرا منشا صلاح و مشورہ کے نقصانات گنوانا نہیں (اس لئے کہ میں دماغی صحت کے لے یہ ضروی سمجھتا ہوں کہ انسان کو پابندی سے صحیح غذا اور غلط مشورہ ملتا رہے۔ اسی سے ذہنی توازن قائم رہتا ہے) نہ یہاں ستم ہائے عزیزاں کا شکوہ مقصود ہے۔ مدعا صرف اپنے ان بہی خواہوں کو متعارف کرانا ہے جو میرے مزمن امراض کے اسباب و علل پر غور کرتے اوراپنے مشورے سے وقتاً فوقتاً مجھے مستفید فرماتے رہتے ہیں۔ اگر اس غول میں آپ کو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آئیں تو میری خستگی کی داد دینے کی کوشش نہ کیجئے، آپ خود لائق ہمدردی ہیں۔
Farida
26-Dec-2021 04:29 PM
Good
Reply
Milind salve
20-Dec-2021 03:13 PM
Good
Reply
Zeba Islam
22-Nov-2021 07:55 PM
Good
Reply